تسہیل تقویۃ الایمان کی کہانی  پارٹ (١) تقویۃ الایمان کیوں پڑھائی جائے؟

تسہیل تقویۃ الایمان کی کہانی پارٹ (١) تقویۃ الایمان کیوں پڑھائی جائے؟

ابوالمرجان فیضی

-----

سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ تقویۃ الایمان کیا ہے.. اس کتاب میں ایسا کیا ہے جو دوسری کتابوں میں نہیں؟ اور اسے داخل نصاب کرنا کیوں ضروری ہے ؟
تقویۃ الایمان کتاب رد الاشراک کے پہلے باب کا اردو ترجمہ ہے.. متن بھی شاہ صاحب نے لکھا ہے اور ترجمہ بھی انہوں نے خود کیا ہے..
شرک کی تردید عقیدہ کا ایک اہم باب ہے.. اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں... لیکن ان کتابوں میں شرک کی اجمالی تردید ہے.. ہندوستان کی زمین سے جڑ کر تفصیلی اورتطبیقی تردید موجود نہیں..
یہاں کے ماحول سے جڑ کر شرک کی تطبیقی و تفصیلی تردید جس طرح سے تقویۃ الایمان میں ہے.. ویسی تردید کسی کتاب میں نہیں ..
کلمہ لا الہ الا اللہ میں پہلے نفی ہے بعد میں اثبات..
یعنی اللہ کے علاوہ جن معبودان باطلہ کی عبادت کی جاتی ہے..ان کی نفی اور انکار پہلے .. اس کے بعد اللہ کے معبود برحق ہونے کا اقرار..
بعینہ کتاب تقویۃ الایمان کی ترتیب بھی یہی ہے..
یعنی پہلے شرک کی تردید کیجئے.. بعد میں توحید باری تعالیٰ کا اقرار کیجیے..
کتاب میں پہلے اشراک فی التصرف اور اشراک فی العلم کی تردید ہے.. اس کے بعد اشراک فی العبادات اور اشراک فی العادات کی تردید..
اس دعوی کے ساتھ کہ اگر یہ لوگ علم اور تصرف میں شرک نہیں کرتے تو ان سے عبادت اور عادت میں بھی شرک کا ارتکاب نہیں ہوتا.. کیونکہ پہلا دوسرے کا لازمی نتیجہ ہے..
یہ انوکھی ترتیب اس موضوع پر لکھی گئی کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی..
در اصل علم اور تصرف میں شرک ہی عبادات وعادات میں شرک کے کلیدی اسباب ہیں..
علم میں داخل ہے علم غیب، دور و نزدیک سے پکار سننا، بندوں کے احوال کی خبر رکھنا، ان کے برے اور بھلے کو جاننا سمجھنا.. وغيرہ
یعنی انسان فطری طور پر اپنے معبود سے کچھ پانے اور کچھ دینے کے اصول پر کاربند ہوتا ہے.. یعنی تو ہماری ضرورتوں جانے اور انہیں پوری کرے. اور ہم تیری تعظیم و شکر گزاری یعنی عبادت کریں..
تو جو ذات دور و نزدیک کا علم رکھے گی وہ بندے کی پکار بھی سنے گی.. جو بندے کے احوال اور مصائب سے خبردار ہوگی وہی مشکلات کو دور بھی کرے گی..
تصرف میں داخل ہے : مارنا جلانا، رزق دینا، مسائل و معاملات کی تدبیر کرنا اور ان کو سلجھانا.. وغيرہ
چنانچہ جو ذات تصرف کی قدرت رکھے گی اس سے بندے کو بہت سے فائدے پہونچیں گے... وہ بندے کو تندرستی عطا کرے گی، مال دے گی، دشمن اور بیماری سے حفاظت فرمائے گی وغیرہ
لہذا جب کوئی بندہ، علم و تصرف کے ان ثمرات سے بہرہ مند ہوتا ہے تو وہ اس ذات کی تعظیم اور شکر گزاری کرتا ہے.. اس کے گمان کے مطابق جس نے یہ سب کچھ دیا ہے..
اگر اس نے غلط طور پر اللہ کے علاوہ کسی اور کے متصرف اور عالم الغيب ہونے کا عقیدہ گڑھ لیا ہے تو وہ اسی جھوٹے معبود کی عبادت کرے گا..
حالانکہ ایسا علم. اور اس طرح کا تصرف اللہ کے ساتھ خاص ہے
لیکن جب غلط طور سے اس طرح کے علم اور تصرف کو انبیاء و اولیاء، پیر وشہید، بھوت و پری، جن و فرشتہ، زندہ انسان یا مردہ قبر یا استھان کے لئے ثابت کردیا جائے تو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ بندہ اللہ کو چھوڑ کر عبادت و تعظیم کے کام اس کے لئے ہی کرے..
فطری بات ہے کہ جب ان سے علم و تصرف کے فائدے ملیں گے تو بندہ عبادات و عادات میں ان کی ایسی ایسی تعظیم اور ایسی ایسی شکر گزاری کرے گا جیسی تعظیم اور شکرگزاری اللہ کے ساتھ خاص ہے.. اور حقیقت میں یہی شرک ہے..
تردیدِ شرک کا یہ پیٹرن تقویۃ الایمان کا خاصہ ہے.. مجھے علم نہیں کہ ردِّ شرک کا ایسا انوکھا انداز کسی دوسری کتاب میں اپنایا گیا ہو..
افسوس کہ تقویۃ الایمان پڑھنے پڑھانے والے اس کا استیعاب نہیں کرپاتے ..
اور نہ سمجھ پانے کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر اس کتاب کو ایک عرصہ تک پڑھانے کے بعد نصاب سے خارج کردیا گیا ..
اسی لئے میں نے اس کی تسہیل کی ہے تاکہ یہ مضامین خوب اچھی طرح سمجھ میں آجائیں...اور استفادہ و استیعاب مکمل ہوجائے..
اسی مقصد کے لئے حاشیہ میں الفاظ و معانی بھی ہیں اور رسوم ورواج کی مکمل تعریف و تشریح بھی.. شاہ کے طرز استدلال استدلال کی طرف اشارہ بھی..
ساتھ ہی ساتھ عقیدہ کی معاصر کتابوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش بھی..
تقویۃ الایمان میں ضمنی طور پر بھی بہت سے مباحث ایسے ہیں جو تقویۃ الایمان کے ساتھ خاص ہیں .. عقیدہ کی کسی کتاب نے ان کو چھوا تک نہیں ..
ایسی مثالیں سینکڑوں کی تعداد میں ہیں. میں یہاں صرف تین مثالیں ذکر کروں گا ..
(١) آوا گمن کا عقیدہ : سناتن دھرم میں بہت سے اعمال و عقائد ہیں لیکن یہ دوسرے باطل مذاہب میں بھی ہیں..
لیکن ایک ایسی چیز ہے جو سناتن دھرم کو دوسرے مذاہب سے الگ کرتی ہے وہ ہےعقیدہ تناسخ یعنی آواگمن کا عقیدہ..
بخاری و مسلم کی حدیث ہے : لا عدوى ولا طيرة ولا هامة و لا صفر
شاہ صاحب نے ہامہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا :
عرب کے جاہل عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر کسی کو قتل کر دیا جائے تو اس کی کھوپڑی سے ایک الو نکلتا ہے جس میں مقتول کی روح ہوتی ہے یہ پرندہ العطش العطش کی گردان کرتا رہتا ہے.. اور جب تک اس کے وارثین اس کے قاتل سے بدلہ نہیں لے لیتے وہ اسی طرح بے چین اور پیاسا رہتا ہے اور فریاد کرتا رہتا ہے.. اس لئے اہل عرب باپ دادوں کا بدلہ ضرور لیتے تھے. یہاں تک کہ قصاص در قصاص کا یہ سلسلہ سینکڑوں سال تک چلتا رہتا تھا..
اس کی تردید میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ولا ھامة یعنی کسی کھوپڑی سے کوئی الو نہیں نکلتا..
شاہ صاحب فرمائے ہیں : اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تناسخ یعنی آواگمن کا عقیدہ غلط ہے..
تناسخ یا آواگمن کی تفصیل یہ ہے کہ ( ان کے عقیدے کے مطابق) کائنات میں چوراسی لاکھ یونیاں ہیں. اور آدمی کو اس کے کرموں کا پھل اسی دنیا میں ملتا ہے
یعنی جو جیسا عمل کرتا ہے اسی حساب سے وہ اسی دنیا میں دوبارہ جنم لیتا ہے.. کبھی جانور تو کبھی انسان کی شکل میں..
کوئی بیل کے روپ میں کوئی مچھر کے روپ میں جنم لیتا ہے تو گدھا، کوئی چھپکلی کی شکل میں، بہت سے لوگ نیچ ذات شودر کی شکل میں جنم لیتے ہیں.. اور جو سب سے اچھا عمل کرے گا وہ انسان اور انسانوں میں سب سے اونچی ذات برہمن کے روپ میں جنم لے گا.. اگر اس روپ میں بھی اس نے بہت اچھا عمل کیا تو وہ اس جنم مرتیو کے چکر سے نجات پاجائے گا...
"سات جنم کا ساتھ" اسی عقیدے سے مستفاد ہے.
قارئین کرام! آپ یہ موضوع اور اس کی تردید عقیدہ کی کسی اور کتاب میں نہیں پائیں گے...
(٢) دوسری مثال قبروں پر مرغا بکرا چڑھانے کی ہے..
آیت ( وما أهل به لغير الله به) کی تشریح میں شاء صاحب فرمائے ہیں : اھلال کا معنی ہے کسی کے نام پر جانور مشہور کرنا..
اب چاہے کوئی اس جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ لے وہ جانور حرام اور مردار ہے..
کیونکہ اس نے جانور کو غیر اللہ کے نام پر مشہور کردیا...
ایسا استدلال آپ عقیدہ کی دوسری کتابوں میں نہیں پائیں گے
میں نے تسہیل تقویۃ الایمان کے حاشیہ میں اس استدلال اور وجہ استدلال کو مزید واضح کردیا ہے..
( ٣) تیسری مثال ہے : ہمارے سماج کا ایک لفظ ہے کل جَبھی عورت
یہ ہندوستانی معاشرے کے باطل عقائد میں سے ہے .. بعض گھروں میں جب بہوئیں آتی ہیں اور اس کے بعد اس گھر کی ترقی رک جاتی ہے یا پریشانیاں شروع ہوجاتی ہیں تو اس بہو کو منحوس خیال کیاجاتا ہے..
پھر اس بہو کے اندر نحوست کی نشانی تلاش کی جاتی ہے..
ان ہی نشانیوں میں سے ہے : کل جَبھی عورت یعنی کالی پیشانی والی عورت..
کل یہ کالی کا مخفف ہے. جَبھی ( جیم کے فتحہ ساتھ) یہ جبھۃ سے ہے جس کا معنی ہے پیشانی .. کل جبھی یعنی کالی پیشانی والی عورت..
اس لفظ کی دوسری توجیہ بھی ممکن ہے :
جِبّھی لفظ جیبھ ( زبان) سے مشتق ہے.. اس طرح کل جِبِّھی ( جیم کے کسرہ کے ساتھ) کا معنی ہوا کالی زبان والی عورت.. یہ اس عورت کو کہتے ہیں جو لوگوں کو برا بولے.. لیکن منہ سے جو بھی برا لفظ نکالے وہ پورا ہوجائے... یعنی اس کی بد دعا لگ جایا کرے
ہندوستانی معاشرے میں ایسی عورت منحوس سمجھی جاتی ہے..
چنانچہ شاہ صاحب نے لا عدوى ولا طيرة لاصفر ( یعنی ماہ صفر منحوس نہیں ) کے ضمن میں عورت کے منحوس نہ ہونے کو ثابت کیا ہے.. اور ہندوستانی معاشرے میں جن عورتوں کو منحوس سمجھا جاتا تھا ان کا ذکر کرکے بھر پور تردید کی ہے..
قارئین کرام! یہ صرف تین تطبیقی مثالیں ہیں
ایسی سینکڑوں مثالیں تقویۃ الایمان میں بھری ہوئی ہیں جو عقیدہ کی دوسری کتابوں میں نہیں ملتیں، لطف یہ ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر یہ چیزیں سماج میں آج بھی موجود ہیں..
چنانچہ ایک مبتدی طالب علم جب ان تطبیقی مباحث کو نہیں پڑھے گا تو وہ معاشرے میں ان کی تردید کیسے کرے گا؟
ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ عقیدہ کے دوسرے مباحث تقویۃ الایمان میں موجود نہیں..
لیکن جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے.. اس کتاب میں عقیدہ کے صرف ایک لیکن اہم بحث رد شرک پر گفتگو گی گئی ہے.. دوسرے مباحث کے لئے اس کے ساتھ دوسری کتاب پڑھائی جاسکتی ہے..
اور اگر ہمارے قارئین ساتھ دیں تو ان دوسرے مباحث کو بھی تسہیل تقویۃ الایمان میں بطور اضافہ اور ضمیہ کے شامل کیا جا سکتا ہے .. واللہ ولی التوفيق ....
خلاصۃ یہ ہے کہ مضامین کے لحاظ سے تسہیل تقویۃ الایمان نہ صرف نصاب میں پڑھانے کے قابل ہے بلکہ قاری کے عام مطالعہ کے لئے بھی..
یہ کتاب سلفیان ہند کے ہر گھر میں ہونی چاہیے.. اللہ توفیق دے. آمین!
Back to blog